گرمِی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغو ں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں ۔
بچ نکلتے ہیں آگر آتشِ سیال سے ہم
شعلہء عارض گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائ تو نہیں شیوہ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں ۔
ربط بہم پر ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب تیرے پیغام سے جل جاتے ہیں ۔
جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں