زومبی، ایک افسانہ یا حقیقت
زومبی، جسے اکثر غیر مردہ، گوشت کھانے والی، بوسیدہ لاش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالیہ برسوں میں اسکی
مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے وہ دی واکنگ ڈیڈ میں اپنے شکار کو کھا رہے ہوں یا مائیکل جیکسن کی "تھرلر" ویڈیو میں اپنا گرویدہ بنا رہے ہوں، زومبی پاپ کلچر پر حاوی ہیں۔ لیکن کیا زومبی حقیقی ہیں؟ بہت سے دوسرے راکشسوں یا مونسٹرز کے برعکس — جو زیادہ تر توہم پرستی، مذہب اور خوف کی پیداوار ہیں — زومبی حقیقت میں ایک بنیاد رکھتے ہیں، اور ہیٹی ووڈو کلچر سے زومبی کے متعدد تصدیق شدہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
زومبی
کی خصوصیات
پاپ
کلچر اور لوک داستانوں کے مطابق،یا جیسے کہ فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ زومبی دراصل
چلتی پھرتی گلی سڑی لاشیں ہوتی ہیں جو کسی وائرس کے پھیلاؤ سے، یا کسی اور زومبی کے
کسی نارمل انسان کو کاٹنے سے بن جاتے ہیں۔ زومبیوں میں سوچنے سمجھنے یا ماحول کی سمجھ
بوجھ نہیں ہوتی۔ اّن میں صرف ایک ہی صلاحیت ہوتی ہے۔ بندہ یا گوشت کھانا۔
زومبی
کو عام طور پر مضبوط لیکن روبوٹک مخلوق کے طور پر دکھایا جاتا ہے جس میں سڑا ہوا گوشت
ہوتا ہے۔ ان کا واحد مشن کھانا کھا نا ہے۔ ان میں عام طور پر بات چیت نہیں ہوتی ہے
(اگرچہ وہ کچھ تھوڑا سا گھور سکتے ہیں)۔
زومبی
کا ماخذ، قدیم تہذیب کے مطابق
قدیم یونانی شاید پہلی تہذیب تھی جو ان مرنے والوں کے خوف سے دہشت زدہ تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ نے بہت سی قدیم قبروں کا کھوج لگایا ہے جن میں پتھروں اور دیگر بھاری چیزوں کے نیچے ڈھانچے موجود تھے، ان قبروں کے اوپر بھاری پتھر کیوں رکھے جاتے تھے؟
غالباً
اس خیال سے کہ مردے دوبارہ سے چلنا شروع نہ ہو جائیں۔
زومبی
لوک داستانیں ،شمالی امریکہ کے ملک ہیٹی میں صدیوں سے چلی آرہی ہیں، جو ممکنہ طور پر
17ویں صدی میں شروع ہوئی جب مغربی افریقی غلاموں کو ہیٹی کے گنے کے باغات پر کام کرنے
کے لیے لایاجاتا تھا۔ ان ظالمانہ حالات نے
غلاموں میں آزادی کی تڑپ ختم کر دی۔ ان داستانوں میں زومبی ایک طرح سے ان غلاموں کی
مشکل زندگی یا مر کر ہی آزاد ہونے کی تشبیہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ کچھ رپورٹس
کے مطابق، ایک زومبی کی زندگی — یا مرنے کے بعد کی زندگی — غلامی کی ہولناک حالتِ زار
کی نمائندگی کرتی ہے۔
زومبی
اور ووڈو کی داستان
مغربی
افریقہ ، برازیل اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں 'ووڈو" مذہب کے ماننے والوں
میں بھی زومبی کا تصور ہایا جاتا ہے۔ ان میں کچھ کا یہ ماننا ہے کہ اس مذہب کے پیشوا
جنہیں "بوکور" کہا جاتا ہے, وہ جڑی بوٹیوں، ہڈیوں اور جانوروں کے گوشت سے
ایک سفوف سا تیار کرتے ہیں جس سے انسان زومبی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس سفوف کو زومبی
پاؤڈر کہتے ہیں۔
بہت
سے لوگ جو آج ووڈو مذہب کی پیروی کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ زومبی افسانے ہیں، لیکن
کچھ کا خیال ہے کہ زومبی وہ لوگ ہیں جنہیں ایک بوکور نے دوبارہ زندہ کیا ہے ۔
بوکورز
میں جڑی بوٹیاں، خول، مچھلی، جانوروں کے پرزے، ہڈیاں اور دیگر اشیاء کو استعمال کرنے
کی روایت ہے جس میں "زومبی پاؤڈرز" شامل ہیں، جس میں ٹیٹروڈوٹوکسین ہوتا
ہے، جو پفر فش اور کچھ دیگر سمندری انواع میں پایا جانے والا ایک مہلک نیوروٹوکسن ہے۔
کیمیکلTetrodotoxin
سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ اگر کسی شخص کو ایک خاص طرح کا کیمیکل
دیا جائے جو شاید زومبی پاؤڈر میں بھی موجود ہو،
تواسکی معمولی مقدار سے چند ایسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جن سے بظاہر ایک انسان
زومبی سا نظر آے
یعنی اُسے چلنے پھرنے میں دشواری ہو، سانس اُکھڑنا شروع ہو جائے یا وہ کنفوژن کا شکار
ہو جائے۔ اس کیمیکل کے زیادہ استعمال سے انسان کوما میں بھی
جا سکتا ہے یا مر بھی سکتا ہے۔
ٹیٹروڈوٹوکسین
کی زیادہ مقدار فالج اور کوما کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی زندہ شخص مردہ
ظاہر ہو سکتا ہے اور اسے زندہ دفن کیا جا سکتا ہے –
اور پھر بعد میں زندہ کیا جا سکتا ہے
پاپ کلچر میں زومبی کی شمولیت
لنڈا
ٹروسٹ کی دی انڈیڈ ایٹئنتھ سنچری کے مطابق، زومبی ادب میں 1697 میں نمودار ہوئے تھے
اور انہیں روح یا بھوت کے طور پر بیان کیا گیا تھا، نہ کہ کینبلسٹک فینڈز۔
وہ
فلمی منظر پر اپنے مونسٹر ساتھیوں، فرینکنسٹین
اور ڈریکولاکے ساتھ 1932 میں فلم "وائٹ
زومبی" کی ریلیز کے ساتھ پہنچے۔
جارج
رومیرو کی ہدایت کاری میں1968 میں بننے والی فلم نائٹ آف دی لیونگ ڈیڈ کی ریلیز کے ساتھ ہی زومبی
نے اپنے الگ پرستار حاصل کر لیے۔ اگلے 15 سالوں میں، رومیرو نے مزید
دو زومبی فلمیں ڈائریکٹ کیں، ڈان آف دی ڈیڈ اور ڈے آف دی ڈیڈ۔ ہر فلم کے ساتھ خصوصی
اثرات کی ٹیکنالوجی میں بہتری آئی، زومبی زیادہ خوفناک اور حقیقت پسندانہ نظرآنےلگے۔
1980کی دہائی سے، درجنوں زومبی فلمیں بنائی گئیں۔
یہاں تک کہ1998 " میں سکو بی ڈو نےزومبیوں سے جنگ کی،"سکوبی ڈو زومبی جزیرے پر" کی فلم میں-
۔ نے زومبی کو مزید شہرت دیZ کی فلم ورلڈ وار Brad Pitt
iZombie
اور
Helix ٹیلی ویژن نے
جیسے پرو گرام
کے ساتھ زومبی کو شہرت دی۔ لیکن کسی بھی زومبی نے ،کبھی بھی ٹیلی ویژن کے ناظرین
کو دی واکنگ ڈیڈ سے زیادہ خوفزدہ نہیں کیا۔
زومبی
کے ساتھ ہماری دلچسپی
جدید
دنیا زومبی کے ساتھ ایسی محبت کا رشتہ کیوں رکھتی ہے؟ اسٹینفورڈ کی ادبی اسکالر انجیلا
بیسررا ویڈرگر کے مطابق، تاریخ کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
ان
کا ماننا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والے بم دھماکوں
کے بعد تشدد کے بارے میں انسانیت کے تصور نے سخت رخ اختیار کیا۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ
اس طرح کے بڑے پیمانے پر ہونے والی آفات کی وجہ سے لوگ بڑے پیمانے پر اپنی موت کا افسانہ
بناتے ہیں اور زومبی داستانوں میں ایک عام موضوع، موزوں ترین یا مکمل فٹ ، کی بقا پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
چاہے
آپ زومبی کے پرستار ہوں یا آپ خوف کی وجہ سے ،ایک آنکھ کھول کر سوتے ہوں، یہ ماننا پڑے گا کہ زومبی جدید پاپ کلچر کا حصہ ہیں۔ اگرچہ
زومبی کے افسانے کی حقیقت میں ایک بنیاد ہے، لیکن آج کے زومبی نے اپنی زندگی خود اختیار
کر لی ہے۔